مولانا احتشام الحق تھانوی (Molana Ehtisham ul Haq Thanvi)

حضرت مولانا احتشام الحق تھانویؒ کی ولادت با سعادت 1333ھ بمطابق 15 مئی 1915ء بمقام قصبہ اِٹاوہ ضلع مظفر نگر یوپی ہندوستان میں ہوئی۔ آپ کے والد ماجد کا نام حضرت مولانا ظہور الحق کیرانویؒ تھا جو حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے شاگرد اور سید الطائفہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ کے مرید خاص تھے۔ آپ کی والدہ ماجدہ حضرت حکیم الامت تھانویؒ کی چھوٹی (علاتی) بہن ہیں جو شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ سے بیعت تھیں۔

آپ نے 12 برس کی عمر میں قرآن حفظ کیا، فارسی کی متد اول کتابیں میرٹھ میں فارسی کے امام مولانا اختر شاہ صاحب سے پڑھیں، پھر مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور میں عربی کی تعلیم کا آغاز کیا۔

آپ 1350ھ بمطابق 1930ء کو دارالعلوم دیوبند میں داخل ہوۓاور 1357ھ بمطابق 1937ء میں وہیں سے سندِ فراغت حاصل کی۔ پھر الہ آباد یونیورسٹی اور پنجاب یونیورسٹی سے عالم فاضل کے امتحانات میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔ آپ نے دیوبند میں شیخ العرب و العجم مولانا سید حسین احمد مدنیؒ، شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانیؒ، شیخ الادب مولانا اعزاز علی امروہیؒ، مولانا میاں اصغر حسین دیوبندیؒ، محمد ابراہیم بلیاویؒ وغیرہ سے علوم و فنون حاصل کیے۔

آپ حضرت تھانویؒ کے حکم کے مطابق 1356ھ بمطابق 1938ء میں بغرض تبلیغ دہلی کی طرف بھیجے گئے، جہاں پہلے پہل خواجہ میر درد والی مسجد میں، بعد ازاں دہلی (سینٹرل سیکریٹریٹ دہلی کی جامع مسجد) میں اعزازی خطیب مقرر ہوۓاور 1947ء تک اسی مسجد کے خطیب رہے۔

حضرت کا نکاح دسمبر 1940ء میں حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے حقیقی بھائی جناب اکبر علی فاروقی تھانوی کی حقیقی نواسی کے ساتھ ہوا، نکاح خواں حضرت حکیم الامت تھے۔

آپ کا شمار اُن ممتاز حیثیت کے علماء میں ہوتا ہے جنہوں نے تحریک پاکستان میں اپنے بزرگوں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ اور شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانیؒ کی حکیمانہ و مصلحانہ ہدایات کے مطابق بھر پور حصہ لیا، جس کے نتیجے میں مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان معرض وجود میں آیا۔

آپ قیامِ پاکستان کے اعلان سے 8 روز قبل کراچی جیکب لائن پہنچے اور آج کی مرکزی تھانوی مسجد جیکب لائن کی پنج وقتہ نمازوں کی امامت اور خطبات جمعہ کی ذمہ داری اعزازی طور پر سنبھالی اور تاحیات اسی مسجد کے خطیب اور دینی و تبلیغی خدمت سے وابستہ رہے۔

آپ کی بہت سی دینی و سیاسی خدمات ہیں اُن میں سے لائق ذکر مندرجہ درج ذیل ہیں۔

  1. پاکستان میں پہلی مرتبہ شعبۂ تجوید کا آغاز (ذوالحجہ 1369ھ بمطابق اکتوبر 1950ء)
  2. پاکستان کے پہلے دینی ماہنامہ مجلّہ "دعوۃ الحق" کا اجرأ (ربیع الثانی 1371ھ بمطابق جنوری 1952ء)
  3. روئیت ہلال کمیٹی کا آغاز (دورِ ایوبی و ذوالفقار علی بھٹو / سن 1967ء تا 1974ء)
  4. ریڈیو پاکستان سے پہلی مرتبہ درس قرآن کا اجرأ (1950ء)
  5. ریڈیو پاکستان سے پہلی مرتبہ یومیہ تلاوت قرآن پاک
  6. "جنگ" اخبار میں پہلی مرتبہ درس قرآن کی اشاعت (رمضان المبارک 1385ھ بمطابق 25 دسمبر 1965ء)
  7. "انجام" اخبار میں پہلی مرتبہ درس حدیث کی اشاعت
  8. پاکستان میں سب سے پہلے مسجدوں میں خطباتِ جمعہ کے لیے لاؤڈ اسپیکر کا استعمال (1951ء)
  9. پاکستان کے پہلے دینی ادارے "دارالعلوم الاسلامیہ ٹنڈو الہ یار" کا قیام (ذوالقعدہ 1369ھ بمطابق ستمبر 1950ء)
  10. وفاق المدارس کی پہلی کمیٹی کے کنوینئر
  11. حضرت مولانا محمد یوسف بنوریؒ اور مؤرخ اسلام حضرت مولانا سید محمد سلیمان ندویؒ وغیرہ کو پاکستان لانا
  12. عائلی قوانین کی بعض غیر اسلامی شقوں کے خلاف کمیٹی کے تنہا عالم دین رکن کی حیثیت میں پہلا مستند ترین اختلافی نوٹ تیار کرنا
  13. ختم نبوت کی تحریک میں سالمیت پاکستان کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے حکمت و تدبر کے ساتھ اپنے بزرگ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحبؒ (مفتی اعظم پاکستان اول) کی رفاقت میں حصہ لینا
  14. 22 نکاتی اسلامی دستورکے مرکزی داعی اول (1951ء تا 1953ء دورِ حکومت گورنر جنرل غلام محمد)

وفات

مولانا موصوفؒ دارالعلوم دیوبند کی صد سالہ تقریبات (23،24،25 مارچ 1980ء) میں شرکت کیلیے 26 مارچ کو دہلی تشریف لے گئے تھے ، وہاں سے دارالعلوم دیوبند اور تھانہ بھون کی زیارت فرماتے ہوئے مدراس گئے جہاں 24 جمادی الاول 1400ھ بمطابق 11 اپریل 1980ء بروز جمعہ بعد نماز فجر دوست احباب سے دینی گفتگو کرنے کے دوران دل کے دورے کی وجہ سے آپ کا انتقال ہوا۔ آپ کی تدفین جامع مسجد تھانوی کراچی کے پہلو میں کی گئی۔